گذشتہ ماہ کے شاعر عزیز نبیل

 

جاوید ندیم

 

ادب نامہ کی پیش کش
اس ماہ کے شاعر
اس ماہ اس کے تخت پڑھیے معروف نوجوان شاعر
جاوید ندیم
کا کلام







l
رات کا پچھلا پہر ہےاور میں
جاگتا سوتا نگر ہےاور میں
میں کہ سنگ آسا ہُوا ہوں دوستو!
کیسےجادُو کا اثر ہےاور میں
حکم ہےجرعہ کشی کا دیکھئے
زہر لب پر قدح بھر ہےاور میں
زندگی صحرا سفر ہےجان لیں
سر پہ تپتی دوپہر ہےاور میں
پھول ، پودےاور بستی سوگئی
آرزو کا اِک شجر ہےاور میں
لوگ سارےبےسماعت ہوگئے
شور کرتا زخمِ سر ہےاور میں
آنکھ میں سب کی بسی ہےخُفتگی
تشنہ¿ ناظر ہنر ہےاور میں
ایسا لگتا ہےکہ میں صحرا میں ہوں
رات ہےجاوید گھر ہےاور میں





l
دیکھتےخود کو کبھی بھیڑ میں کھوکر تم بھی
لوگ ہوکر نہیں ہوتے‘ وہاں ہوکر تم بھی
میری خواہش تھی کبھی پاس تمہارےرُکتا
اپنےپیروں میں لئےپھرتےہو چکّر تم بھی
اِن درختوں کےتلےپہلےبھی لوگ آئےتھےنام لکھ جاو¿ میر دوست! یاں پر تم بھی
دِل مرا صبح کو بازار کا حصّہ ہوگا
ذہن کو لےکےنکل جاو¿گےدفتر تم بھی
رات رانی سی مہکتی ہُوئی یادیں میری
سوچ لو مجھ کو تو ہوجاو¿ معطّر تم بھی
لوگ ہوتےہی اذاں اپنےسفر پر نکلے
جاگ بھی جاو¿ ‘ سمیٹو ذرا بستہ تم بھی
میں نےرو رو کےکیا اپنےلہو کو پانی
آگ میں اپنی ہی جلتےرہےنشتر تم بھی






l
عذاب ٹھہرا ہمیں اپنا آئینہ ہونا
کہ لمحہ لمحہ تنفّر سےسابقہ ہونا
ملےہیں ہم کو اَمر بیل کی طرح احباب
شجر کا ہوکے‘ شجر سےمگر جدا ہونا
اُٹھائےپھرنا اُجالےمیں جھوٹ کا پرچم
اندھیرا ہوتےہی پھر سچ سےآشنا ہونا
خیال رکھنا ہمیشہ مزاج کا اُس کے
اور اپنےآپ سےہر دَم خفا خفا ہونا
نجات دیتا تھا مجھ کو ہر اِک اذیّت سے
وہ میرےحق میں ترا سر بہ سر دُعا ہونا
کیا جو اُس کو کبھی محترم تو ایسا لگا
کہ جیسےخود سےتکلف کا واسطہ ہونا









l
کھوٹ اپنی کہہ سکیں جس سےکوئی ایسا بھی ہو
ہم تو پتھر ہیں ‘ سفر میں اِک عدو شیشہ بھی ہو
بےتعلق شخص سےبہتر ہےوہ ساتھی مرا
غم میں جو ہنستا بھی ہو ‘ تسکیں مگر دیتا بھی ہو
یاد کچھ آتا نہیں ‘ ہم نےاُسےدیکھا کہاں
کیا خبر وہ خود بھی ہو ‘ تصویر کا چہرہ بھی ہو
اُس کےچہرےپہ کبھی غم کی رَمق دیکھی نہیں
کوئی کیا جانے‘ وہ تنہائی میں روتا بھی ہو
کربِ تنہائی ہےکیا شئے‘ کاش وہ بھی جانتا
کتنا اچھا ہو کہ وہ ہم سا کبھی تنہا بھی ہو
یہ دَیارِ غیر تو سنسان صحرا ہےندیم
کوئی اپنا ہو یہاں تو ‘ کوئی بےگانہ بھی ہو








l
خواب ، حقیقت ، سایہ میں
رنگ اور خوشبو جیسا میں
میرےبِنا سب سُونا تھا
رنگِ بہاراں لایا میں
صُورت اپنی تکتا ہوں
آپ ہی خود کو بھایا میں
بزم کی رونق مجھ سےہے
محفل محفل تنہا میں
دیکھا اُس نےبات نہ کی
شب بھر کتنا رویا میں
جنگل جنگل بھٹکوں میں
آہُو آسا ‘ گویا میں
پیچھےمنزل چھوٹ گئی
جانےکہاں تھا کھویا میں
خود کو اب دوہرانا ہے
تم ہو کہانی ‘ قصہ میں





l
برگشتہ اپنےپانو¿ سےہر رہ گذر ہُوئی
تم جو نہیں تو زندگی نا معتبر ہُوئی
آسان راستوں سےگذرتےرہےہیں سب
دُشوار تھی جو راہ وہ میری ڈگر ہُوئی
پُرکھوں کی اُس عظیم حویلی کا کیا ہُوا
یہ دیکھتےہی دیکھتےبےسقف و دَر ہُوئی
بےکاریوں کو کام میں لانےکی راہ ڈھونڈ
بےکاریوں کی بات بہت بےاثر ہُوئی
اُس کی بھی ہوگئی ہےبہت بےحِسی فزوں
ہم سےبھی احتجاج کی منزل نہ سر ہُوئی
اُس کو ہمارےحال پہ آیا تو کچھ یقیں
یعنی ہماری داستاں اب معتبر ہُوئی
حامی ہیں اب بھی لوگ تحفُّظ کےکیوں ندیم
فرقِ بلند و پست سےحالت دِگر ہُوئی






l
زخم اگر گُل ہےتو پھر اُس کا ثمر بھی ہوگا
ہِجر کی رات میں پوشیدہ قمر بھی ہوگا
کون سُنتا ہےیہاں پست صدائی اِتنی
تم اگر چیخ کےبولو تو اثر بھی ہوگا
کچھ نہ کچھ رختِ سفر پاس بچا کر رکھنا
اِک سفر اور پسِ ختمِ سفر بھی ہوگا
مطمئن رہیئے، کبھی خود کو تسلّی دیجئے
یہ ہی جینا ہے، یہی جینےکا ہنر بھی ہوگا
عمر گذری ہےاِسی ایک تمنّا میں ندیم
مجھ سےبےگھر کا کہیں شہر میں گھر بھی ہوگا











l
گذرا ہےوَقت گر تو گذر کر کدھر گیا
ساکن اگر رہا تو کہاں پر سفر گیا؟
اِک تم حِجابِ ذات سےباہر نہ آسکی
اِک میں کہ اپنی حد سےبھی آگےگذر گیا
جانو کہ زندگی کی بقاءآرزو سےہے
مشکل بہت ہےراہ جو شوقِ سفر گیا
خوشبو نہ تازگی نہ ہواو¿ں میں نغمگی
بےنُور دشتِ جاں ہےکہ دِل سےگذر گیا
دیکھو! تمہاری سطح سےاُونچا سوال ہے
کیسےبلندیوں پہ وہ بےبال و پَر گیا
میرےوجود سےتھا تماشہ یہاں ندیم
میں کیا گیا کہ ساتھ سبھی خیر و شر گیا









l
ہو رہےہیں زندگی کےنِت نئےاِظہار گم
سچ سےہوجائیں گےکل سب کےسب کردار گم
راستےتو ہوگئےکتنےکشادہ دیکھئی!
راستوں کےبازوں سےہوگئےاشجار گم
وہ حِصارِ ذات سےکبھی نکلا نہیں
سوچ میں اُس کی رہےہیں ہم مگر بےکار گم
سلسلہ موجوں کا دریا سےہُوا کب منقطع
کب درختوں سےہُوئےہیں بیج کےآثار گم
دےدیا احساس کو الفاظ کا جامہ مگر
صفحہ¿ قرطاس پر آکر ہُوا اِظہار گم
شہر آخر کھا گیا قدرت کی سب رنگینیاں
پیڑ ، پودے، جھیل ، میدان ، گھاٹیاں ، کُہسار گم
ابتدا اور اِنتہا کےبیچ حائل کون؟ مَیں
حال ماضی اور فردا میں سب اَدوار گم






l
کاغذ کی ناو¿ کیا ہُوئی ‘ دریا کدھر گیا
بچپن کو جو ملا تھا وہ لمحہ لمحہ کدھر گیا
معدوم سب ہُوئیں وہ تجسس کی بجلیاں
حیرت میں ڈال دےوہ تماشہ کدھر گیا
پھر یوں ہُوا کہ لوگ مشینوں میں ڈھل گئے
وہ دوست لب پہ لےکےدِلاسہ کدھر گیا
یہ کیا کہ مل گئےتو اِشارہ کیا چلے
بانہوں میں بھینچنےکا طریقہ کدھر گیا
کیا دشتِ جاں کی سوختہ حالی کہیں اِسے
چاہت میں چاند چُھونےکا جذبہ کدھر گیا
تاریکیاں ہیں ساتھ میرےاور سفر مُدام
کل تک تھا ہم قدم جو فرشتہ کدھر گیا
جو رہ نُما تھےمیرے‘ کہاں ہیں وہ نقشِ پا؟
منزل پہ چھوڑتا تھا جو رستہ کدھر گیا
فائل کےمیری سارےہی اوراق گم ہُوئے
رکھا تھا کاٹ کر جو تراشہ کدھر گیا




l
رات سوئی ہُوئی بستی ‘ سبھی رستےخاموش
اور ہم ہیں کہ کسی دیپ سےجلتےخاموش
جھوٹ بازار کےچہرےپہ چمکتا سُورج
سچ کےجنگل کےسبھی پیڑ پرند خاموش
فلسفی چُپ ہیں سبھی ‘ اور مفکر ساکت
زندگی تیرےمقابل ہُوئےسارےخاموش
اُس کےجانےسےہیں موسم کی بہاریں بےرَس
پیڑ چُپ چاپ ‘ ہَوا بند ہے‘ غُنچےخاموش
سچ کو پیرانِ طریقت تہہ دستار رکھیں
زیرِ محراب ہُوئےسارےصحیفےخاموش
خونِ مقتول ہی بولےگا ، گواہی دےگا
ہونٹ گونگےہیں تو آنکھوں کےدریچےخاموش
علم کچھ اُس کا ہمیں خود بھی نہیں ہےجاوید
اب سےپہلےنہ ہُوئےہم کبھی اِتنےخاموش






l
شہرا سارا سوچکا ہے‘سب دَر و دیوار چپ
اِک فقط ہم جاگتےہیں ‘ جیسےہو بیمار چپ
لےچُکی ہےزندگی سب کا یہاں پر اِمتحاں
کامراں کتنےہُوئی؟ مجذوب چپ ، ہوشیار چپ
اِک عجب سی کش مکش ہےذہن و دِل میں اِن دِنوں
شب کےسنّاٹےمیں جیسےصبح کےآثار چپ
یہ کھنڈر ، تہذیبِ رَفتہ کےکہو مدفن اِنہیں
بُوم کی فریاد میں ہےہر گنبدِ مسمار چپ
دیجئےعصری غزل کو اب کوئی لہجہ نیا
کس لئےہونےلگی ہےجدتِ اِظہار چپ
دِل سےاُٹھ کر دُور تک ہےمرتعِش موجِ اَلم
پیڑ ، پودے، جھیل ، جھرنے، قریہ و کُہسار چپ
رائیگاں لگنےلگی کیوں اپنی ہر کاوِش ہمیں
جو سخن کرتےتھےکل تک ہیں وہی اشعار چپ






l
آنکھوں سےرنگ ‘ پھول سےخوشبو جدا رہے
رُوٹھی رہےحیات وہ جب تک خفا رہے
اِتنےقریب آکہ نہ کچھ فاصلہ رہے
سانسوں کےماسوا نہ کوئی سلسلہ رہے
دستک کوئی نہ در پہ ہو لیکن لگن رہے
ہر لمحہ انتظار یہ کسی کا لگا رہے
ڈسنےلگےنہ قرب کی یکسانیت کہیں
اچھا یہی ہےمل کےبھی کچھ فاصلہ رہے
وحشت کو اپنی دیکھنےوالا کوئی نہ ہو
اب اُس جگہ چلیں نہ جہاں دُوسرا رہے
پھر دِن میں میرےساتھ کوئی حادثہ نہ ہو
دِل ہےکہ ساری رات یہی سوچتا رہے
انجان بستیوں سےتو شہرِ عدو ہی ٹھیک
یہ کیا کہ دُور تک نہ کوئی آشنا رہے






l
نیند ٹُوٹی تو خواب سےنکلے
زندگی کےسراب سےنکلے
ہم فضا میں بکھر گئےایسے
جیسےخوشبو گلاب سےنکلے
وہ حقیقت تہہ حقیقت ہے
کاش! اِک دِن نقاب سےنکلے
جب سمندر کو رُو برو پایا
ہم بھی اپنےسراب سےنکلے
کتنا اچھا لگا ‘ بدن چھوٹا
ہم مسلسل عذاب سےنکلے
تم بھی پِیری میں ہوگئےداخل
ہم بھی اپنےشباب سےنکلے
تم نےجاوید کیسا سوال کیا
کتنےپہلو جواب سےنکلے






l
خود کو ہم نےجانا کب؟ اور ملےہیں دانا کب؟
ہم کو جو بتا پاتےکیا ہےزندگی ‘ زندگی آخر
خاک سب کو ہونا ہے‘ خاک ہی سےہونا ہے
آخری سفر اپنا ‘ بن کےروشنی آخر
یوں تو سب سہانا تھا ‘ پر تمہارا جانا تھا
لےگئےہو موسم کی ‘ ساری تازگی آخر
اُس کا لب کُشا ہونا ، پھول کا نِدا ہونا
گھل گئی فضاو¿ں میں ‘ کیسی نغمگی آخر
حسرتوں کا صحرا ہے‘ آب ہےنہ سایہ ہے
لمحہ لمحہ وحشت ہےاور ہےبےبسی آخر
تم نےدشت چھانا ہے‘ یعنی خوب جانا ہے
زندگی کےجنگل میں ‘ کیا ہےدیدنی آخر
حالِ دِل سُنانا تھا ‘ زخم بھی دِکھانا تھا
ہوگئی مگر مانع اُس کی بےرُخی آخر





l
بار لگتی ہےآشنائی اب
گیلےکاغذ پہ روشنائی اب
سارےطائر ، شجر ، بشر ، خُفتہ
جاگتی ہےفقط خدائی اب
شہر جلنا تھا جل چکا صاحب
کرتےرہیئےگا چارہ جوئی اب
طےشدہ منظروں کےعادی تم
سچ نہ دےگا تمہیں دِکھائی اب
گن چکےمرےسب محاسن تم
ڈھونڈیےمجھ میں کچھ برائی اب
اُڑ چکیں سب وِصال کی پریاں
بس ہےنوحہ کُناں جدائی اب
ہو نہ دیوار گھر میں ‘ چھوڑا گھر
بدگُماں کیوں ہےمیرےبھائی اب
یعنی دھوکہ ہےچاہ دُنیا کی
بات اپنی سمجھ میں آئی اب
فَن کو لےکر کہاں چلےجاوید!
سب پہ حاوی ہےکم نگاہی اب



l
وہ صدا کا عَلم اپنی اُونچا کرے
سننےوالا کہاں ہےنہ پوچھا کرے
اب ہےدامن تہی حرف و اِظہار کا
لفظ خود سےمعانی کو منہا کرے
منحصر ہیں طلب اور رسد پر سبھی
کوئی اب بےسبب کس سےرِشتہ کرے
کتنی اَفواہیں اُس کےتعاقب میں ہیں
کیا گلی سےیہ لڑکی نہ گذرا کری؟
فلسفہ¿ شاعری (فَن) چھلاوا ہیں سب
کوئی پاگل ہی اب اُن کا پیچھا کرے
لفظ کرتےہیں اُس کےکیسےالگ گفتگو
بات لیکن الگ اُس کا لہجہ کرے
زندگی ہےسفر ‘ اِس میں راحت کہاں
دِل ترستا ہےراحت کو ‘ ترسا کرے
صبح مسجد سےآتی ہےبانگِ اذاں
خواب بستر پہ جاوید دیکھا کری


 

Contact:-

Javed Nadeem

103,Qaswah Plaza,Patel Mohalla

Panvel  New Mumbai  Dsit.Raigrah

Phone:-(022)27454412

Mobile:-9224424235

Email:-javednadeem123@yahoo.com

 

By:

M.Mubin

Adab Nama

303-Classic Plaza,Teen Batti

BHIWANDI-421 302

Dsit.Thane ( Maha)

Mob:-9372436628

Email:-adabnama@yahoo.com